Foreword پیش لفظ


دیباچہ

 ” ذہن میں کُلبُلاتے سوالات”

نہ تو یہ کتاب کسی “سازشی نظریے”  پر مبنی ہے اور نہ ہی یہ کتاب کسی پر الزام دھرنے یا صفائ پیش کرنے کے لئے لکھی گئی ہے-

سابق امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ نے جولائ 2022 میں اپنی پراپرٹی پر سعودی گالف ٹورنامنٹ کا انعقاد کیا تو “نائن الیون” کے متاثرین کی تنظیموں نے سخت احتجاج کیا کیونکہ 19 ہائ جیکروں میں سے 15 کا تعلق سعودی عرب سے تھا- جواب میں ڈونالڈ ٹرمپ نے معترضین کو یہ کہہ کر چُپ کر دیا کہ “11/9 ” واقعات کے نیچے چُھپی حقیقت تک کوئ نہیں  پہنچ  پایا ہے[1]–  ظاہر ہے کہ ڈونالڈ ٹرمپ کے اس بیان نے دُنیا کو حیران کر دیا کہ اگر ڈیڑھ سال پہلے صدارت چھوڑنے والے امریکی صدر تک کو نائن الیون کی حقیقت پتہ نہیں ہے  تو پھر گزشتہ 21 سالوں سے امریکی حکومت کیا کر رہی تھی اور پھر یہ “دہشت گردی” کے خلاف جنگ کس لئے لڑی جارہی تھی

یہ کتاب ، گزشتہ 21 سال کی عرق ریزی کا نتیجہ ہے –  اس کتاب میں منطقی استدلال کی روشنی میں “11/9″ واقعات پر تحقیق اور تجزیہ کیا گیا ہے – یہ وہ کام ہے جو امریکی حکومت  نے 21 سالوں میں ” بوجوہ ” نہیں کیا

شرلاک ہومز جیسے شہرۂ آفاق کردار کے خالق سر آرتھر کونن ڈائل کا قول ہے کہ “جب تمام تر ناممکنات کو علیحدہ کردیا جائے تو باقی جو بچے گا وہ ہی حقیقت ہوگی ، چاہے بظاہر اُس کا امکان کتنا ہی کم نظر آتا ہو

اس کتاب کی تیّاری میں بھی ہر طرف کے نکتۂ نظر اور ہر ممکن ذرائع ابلاغ سے ملنے والی معلومات کا تنقیدی جائزہ لیا گیا اور “تمام تر ناممکنات”  کو مسترد کرنے کے بعد جو ” حقیقت ” بچ کر سامنے آئی اس کو تحریر کیا گیا جس سے کوئ 50 صفحے کی دستاویز بنی –  وضاحت یا “سند”  کے طور پر انٹر نیٹ سے ڈاؤن لوڈ کر کے کچھ نقشے ، مضامین ، خبریں اور چارٹ بھی شامل کئے گئے تاکہ مزید چھان بین اور تحقیق کرنے والوں کو آسانی ہو-  اصل تحریر کو بھی “بڑے حروف” میں چھاپا جارہا ہے تاکہ بغیر چشمے کے بھی بآسانی پڑھا جا سکے- اخباری سائز والے چھوٹے حروف میں یہ کتاب 25 سے 30 صفحات کی ہوتی جو کہ بآسانی ایک ہی نشست میں پڑھی جاسکتی ہے لیکن بہتر طریقہ یہ ہوگا کہ ایک نشست میں ایک ہی باب پڑھا جائے تاکہ “ثقیل ” مندرجات کو ہضم کرنے میں آسانی ہو- اس ہی لئے کتاب کے کلیدی نکات کو مختلف ابواب میں بار بار دوہرایا گیا ہے تاکہ وقفوں میں پڑھنے پر بھی کتاب کا تسلسل برقرار رہے

اصل بات یعنی “حقیقت”  تو پہلے باب ” نائن الیون : کیا ہوا تھا؟ ” میں ہی کہہ دی گئی ہے- باقی کتاب میں تفاصیل ہیں کہ پہلے باب میں بیان کردہ حقائق تک کیسے پہنچا گیا – آخیر کے چند ابواب میں مستقبل کے امکانات پر بھی بحث کی گئی ہے جسے “خیالی پُلاؤ” سمجھ کر پڑھا جا سکتا ہے لیکن کتاب کا “عطر” پہلے باب میں ہے جس میں نائن الیون سے متعلق تمام سوالات کا جواب مل جاتا ہے-

آج کی مصروف دنیا میں کتابیں پڑھنے کا وقت بہت ہی کم لوگوں کے پاس ہوتا ہے اس لئے اس کتاب میں ممکنہ حد تک اختصار سے کام لیا گیا ہے – زیادہ تر ابواب دو تین صفحوں میں ختم کر دئے گئے ہیں-  کتاب کا پہلا اور آخری باب پڑھ لیجئے ، باقی کتاب جب چاہیں پڑھ لیجیئے گا- بلکہ نہ بھی پڑھیں تو زیادہ فرق نہیں پڑے گا- لیکن پہلا اور آخری باب پڑھنے کے بعد ہی آپ کو  اپنے ذہن میں نائن الیون کے بارے میں ” کُلبلاتے سوالات”  کا جواب مل جائے گا- اس کی مکمل گارنٹی دی جاتی ہے-

                        قرفراز احمد صدیقی  Qirfiraz Ahmed  Siddiqui                         

اگست 2022 –  کاسٹرو ویلی  August 2022, Castro Valley               

کیلی فورنیا –  ریاستہائے متحدّہ امریکہ  California, United States of America     


  1. [1] https://www.aa.com.tr/en/americas/no-one-s-gotten-to-the-bottom-of-9-11-trump-says/2648227

What Happened?

 ” نائن الیون  :  کیا ہوا  تھا ؟ “

اسامہ بن لادن[1]    “نائن الیون[2]”     کا  منصوبہ ساز  ہرگز   نہیں   تھا ۔   کوئی    کم تجربہ کار،    نو آموز ،   عام سا ، ماہر نفسیات بھی  اسامہ  کی شخصیت کے تجزیے،  باڈی لینگوئج   اور تعلیمی ریکارڈز   وغیرہ کی روشنی میں   یہ بات  پوری ذمہ داری سے کہہ سکتا ہے  کہ اُسامہ بن لادن کے پاس نہ تو  اس پیچیدہ کام کی منصوبہ بندی کرنے کے لئے مطلوبہ ذہانت تھی  اور  نہ ہی  اُس کے پاس  چار  برِّ اعظموں  پر پھیلے ہوئے اس گُنجلک پلان پر عملدرآمد کے لئے انتظامی مہارت تھی

دو مئی 2011 کو ہونے والے ایبٹ آباد آپریشن[3] کے بعد اس کی رہایش گاہ سے  برآمد ہونے والے کاغذات اور دستاویزات بھی اس دلیل کے لئے روشن ثبوت ہیں کہ اُسامہ بن لادن   ” نائن الیون”    کا   منصوبہ سازہو ہی نہیں سکتا تھا-

پھر یہ  سب   کیا   کس نے ؟

اس سوال کے جواب میں ہمیں یہ تین ادارے سر گرم عمل نظرآتے ہیں:

 ٭٭٭٭٭٭سوویت خفیہ ایجنسی   “کے جی بی “ [4

 K.G.B.   (جو  ، اب  ایک دوسرے نام سے سرگرم عمل ہے۔)

٭٭٭٭٭٭٭ بھارتی خفیہ ایجنسی ،   “را”  [5]

RAW    (ریسرچ اینڈ اینیلیسز ونگ  Research & Analysis Wing )

٭٭٭٭٭٭٭ عراقی خفیہ ایجنسی ،  “مخابرات”[6]   (صدام حسین کے اقتداراور طاقت کا اہم اور مرکزی ہتھیار)

 انہوں نے  ایسا  کیوں کیا ؟

٭ روس کی خُفیہ ایجنسی “کے جی بی”   کا مقصد، افغانستان میں 1979-1990کے دوران ہونے والی جنگ میں روس کی بدترین شکست اور پھر  اس کے نتیجے میں سوویت یونین کے ٹکڑے ٹکڑے ہونے کاانتقام لینا تھا۔ اس مقصد کے حصول کے لئے اس نے امریکہ کو افغانستان کے اندر  ایک ختم نہ ہونے والی  لا حاصل جنگ میں الجھا دیا۔

٭  ہندوستانی سیکریٹ سروس ” را ”   اس پورے معاملے کا الزام پاکستان کے سر تھوپنا چاہتی تھی  اور  پاکستان میں ” اور  زیادہ ”  دہشت گردی کی کاروائیاں کروانے  کی خواہاں تھی۔  ” را ”  کو  یہ بھی توقع تھی کہ امریکی حکومت غصّے میں آکر  پاکستان پر فوج کشی کر دے گی اور ہوا بھی تقریباً یہ ہی- امریکی نائب وزیرِ خارجہ “رچرڈ آرمیٹاج ” نے پاکستان کو، بمباری کر  کر کے، پتھر کے زمانے میں پہنچانے کی دھمکی دی[7] اور آئیندہ 20 سالوں میں امریکی ڈرون حملوں نے پاکستان میں قتل و غارت گری مچائے رکھی-

٭عراقی خفیہ ایجنسی  “مخابرات ” ، جنوری-فروری 1991 میں،  ہونے والی  پہلی  خلیجی جنگ  میں شرمناک شکست[8]  کا  انتقام لینے کے لئے اس کھیل کا حصہ بنی۔   فروری 1993 میں بھی  ” مخابرات ” نے ، اپنے کارندے  رمزی یوسف کے ذریعے نیویارک  کے  ٹوئن ٹاورز میں ایک  ” ٹرک بم ” کا دھماکہ کروایا تھا[9] لیکن اُس دھماکے سے صرف چھے (6) افراد ہلاک ہوئے اور دونوں ٹاور بالکل محفوظ رہے تھے

 انہوں نے یہ سب کیسے کیا؟

٭یہ سارا پلان ”  کے جی بی  ” کا تیار کردہ تھا ، وہ  ہی  اس کی ماسٹر مائنڈ بھی تھی اور آرکیٹیکٹ بھی-“کے جی بی”   نے  “را”  اور “مخابرات” کو اس کا م کے لئے منتخب کیا اور ا نہیں اس کا ٹاسک دیا اور پھر خود اس سارے منصوبے کی   ( دُور  رہ کر،  اپنی  شناخت  کو چُھپاتے ہوئے )    فاصلے سے مگر مکمل نگرانی کی  

دنیا کود ہلا  دینے اور بدل ڈالنے والے اتنے بڑے آپریشن کی منصوبہ بندی، اسے عملی شکل میں لانے اور واقعات کے طے شدہ پروگرام کے مطابق صحیح تسلسل اور تواتر سے وقوع پذیر ہو پانے کو یقینی بنانے کے لئے جس شیطانی ذہانت، اور مہارت کی ضرورت تھی  وہ  بجا  طور  پر  “کے جی بی”   جیسی تجربہ کار  اور اعلی صلاحیتوں اور وسائل کی حامل خفیہ ایجنسی ہی سرانجام دے سکتی تھی ۔

٭بھارتی ائر فورس سے تعلق رکھنے والے” را ”  کے ایجنٹس نے نائن الیون کے ہائی جیکرز کو پیشہ ورانہ تربیت فراہم کی۔ انہوں نے یہ کام پاکستان کے جہادی پائلٹس اور  مسلمان انجینئرز کا سوانگ بھر کے کیا-  گوری رنگت اور نیلی آنکھوں والے روسی یہ ذمہ داری نہیں نبھا سکتے تھے۔

“مخابرات “سے تعلق رکھنے والے عرب  ٹرینرز  خود اتنے ماہر نہیں تھے جو  محمدعطا[10]  اور اس کے ساتھیوں کو اس اہم ترین آپریشن کے لئے تیا ر کر پاتے، یوں بھی “را “کے پاس روس کے افغانستان پر قبضے (1979-1991 )کے دوران پاکستان میں مسلسل دہشت گردی کرتے رہنے کا ایک لمبا تجربہ موجود تھا اور یہ ہی وجہ تھی کہ افغاستان میں موجود دہشت گردوں کے تمام گروپوں کے ساتھ”را” کے ایجنٹوں  کا قریبی تعلق اور نیٹ ورکنگ موجود تھی۔

اس تعلق نے ہی نائن الیون کے ہائی جیکرز کی مکمل ٹیم کی اسامہ بن لادن کے ساتھ ایک  (اور صرف ایک  ) مختصر ملاقات کو یقینی بنایا۔  یہ ملاقات معاملات کو طے شدہ جہت کے مطابق ثابت کرنے ( یعنی امریکیوں کو بے وقوف بنانے) اور نائن الیون کے ہائی جیکرز کی حوصلہ افزائی اور جوش دلانے( موٹی ویٹ)  کے لئے نہایت ضروری تھی۔  صرف  “را”    ہی اس طرح کی اہم ملاقات کو اس حد تک “خُفیہ”  رکھ سکتی تھی کہ افغانستان میں موجود کسی بھی دوسری سیکریٹ ایجنسی  (” آئ ایس آئ ” وغیرہ)  کو ان ملاقاتوں  کی بھنک تک نہیں پڑی

٭عراقی خفیہ ایجنسی  ” مخابرات”  کے تقریبا تمام عرب ممالک میں نوجوانوں کے ساتھ گہرے روابط تھے۔صدام حسین[11] یوں بھی خود کو پورے عالم عرب کے رہنما کے طور پر پیش کیا کرتا تھا   اور “مخابرات”  تمام عرب ممالک میں خاصی سرگرم عمل تھی مگر اس کے باوجود عرب نوجوانوں میں تکنیکی معلومات اور کچھ مہارت اور علم رکھنے والے نہایت پر عزم اور منصوبے کی اپنی خاص ضرورت کے مطابق ‘‘ درست قسم کے’’ افراد کا چناؤ  یقیناً  ایک مشکل کام تھا۔

جوڑ توڑ میں ماہر “مخابرات” کے ایجنٹس عرب نوجوانوں کی ذہنی ساخت اور سوچ کے پیٹرن سے بخوبی واقف تھے۔ انہوں نے ایک ایسی ٹیم کا انتخاب کیا جس نے چار اہداف (ٹارگٹس) میں سے  تین کو بالکل درست نشانے پر لگا دیا۔ چوتھے ہدف  ( وائٹ ہاوس یا  امریکی پارلیمنٹ بلڈنگ)   کو بھی صحیح  نشانہ پر لگانے کے لئے ہا ئی جیکرز نے اپنے طور پر تو سارا کام  ٹھیک ٹھیک انجام دیا لیکن وہ فلائٹ  ہی  چالیس منٹ کی تاخیر سے روانہ ہوئی  اور  اس تاخیر کی وجہ سے  جہاز کے ہائی جیک  ہونے کے  فوراً بعد ہی ٹوئن ٹاورز پر حملے کی خبر مسافروں  نے سُن لی جس کے بعد مسافروں نے جہاز میں کاک پٹ   پر حملہ کردیا  اور  ہائی جیکروں نے جہاز کو پنسیلوینیا میں  گرا دیا[12]

اسامہ بن لادن خود تکنیکی اعتبار سے ہائی جیکرز کی اس قسم کی ٹیم کے چناؤ اور رہنمائی کے قابل نہیں تھا ۔عراقی “مخابرات” واحد ایجنسی تھی جو عرب جوانوں میں سے مناسب اور بہترین “کارندوں”  کے چناؤ کے وسائل اور اثر و رسوخ رکھتی تھی۔ منتخب ٹیم کو “کے جی بی”  کے ماسٹر پلان کے مطابق نائن الیون کے ہائی جیکرز کے طور پر تیار کرنے کے لئے  ” را ”  کے حوالے کر دیا گیا۔

 انہیں اس سے کیا حاصل ہوا؟

٭”کے جی بی” سوویت یونین کے ٹکڑے ٹکڑے ہونے[13] کا انتقام لینے میں کامیاب رہی اور روس کو پیسہ ، تجارت اور ٹیکنالوجی کے حصول کے ساتھ ساتھ مغربی یورپ اور مسلم دنیا میں خاص اثرورسوخ حاصل ہوا اور” نائن الیون ” کے بعد چند ہی سالوں  میں روس ایک بار پھر دنیا کی بڑی سپر پاورز میں شامل ہو گیا۔

٭  بھارت کو امریکہ کے ساتھ ایک ٹریلین ڈالرز کی منافع بخش تجارت کا موقع میسر آیا اس کے ساتھ ساتھ دنیا بھر میں بہترین تجارتی روابط استوار ہوئے جس نے بھارتی معیشت پر بہت مثبت اثرات مرتب کئے۔  ” را  ” ان سالوں میں بے حد فعال رہی ، پاکستان میں ہزاروں کی تعداد میں دہشت گردی کے واقعات میں ” را ” کے  ملوث ہو نے کے باوجود بھارت نے پاکستان پر ہی دہشت گرد ہونے کے (  جھوٹے ) الزامات  نہایت شدومد اور تواتر سے عائد کئے ۔

بھارتی خارجہ پالیسی کے کرتا دھرتاؤں نے ان الزامات اور پروپیگینڈا وار کا فائدہ اٹھا کر پاکستان کو دنیا بھرمیں (جس میں عرب اور مسلمان ممالک بھی شامل رہے ) تنہا کرنے میں کا فی حد تک کامیابی حاصل کی ۔

٭عراقی “مخابرات” کا کردار اس میں صرف ‘‘پیادوں’’ کے چناؤ اور بھرتی تک محدود تھاجسے انہوں نے بخوبی سر انجام دیا۔اندازہ  یہ ہے کہ صدام حسین ابتدا میں اس پلان کی مکمل تفصیلات سے آگاہ نہیں تھا   مگر نائن الیون ہو جانے کے بعد وہ اچھی طرح سمجھ گیا تھا کہ شروع سے آخر تک کیا،کیوں اور کیسے وقوع پذیر ہوا ہے۔ لہذا جب امریکہ نے افغانستان پر حملہ کیا تویقینا وہ اس بات سے خوش تھا کہ امریکہ کو گمراہ کر کے افغانستان کے ساتھ ایک بے ثمر اور بے نتیجہ جنگ میں الجھانے میں اس   کا بھی اہم کردار رہا ہے۔

یہ الگ بات ہے کہ امریکیوں نے بعد میں عراق پر بھی حملہ کیا[14] اور بات صدام حسین کے المناک انجام تک پہونچی۔ مگر اس میں بھی شبہ نہیں کہ صدام حسین کو آج بھی عرب دنیا کے سب سے مقبول رہنماؤں میں شمار کیا جاتا ہے ۔


  1. [1] https://en.wikipedia.org/wiki/Osama_bin_Laden
  1. [10] https://www.britannica.com/biography/Mohammed-Atta
  1. [11] https://en.wikipedia.org/wiki/Saddam_Hussein
  1. [12] https://millercenter.org/remembering-september-11/september-11-terrorist-attacks
  1. [13] https://www.britannica.com/event/the-collapse-of-the-Soviet-Union
  1. [14] https://www.cfr.org/timeline/iraq-war